غزل
(راشؔد
ذوالفقار)
حلیفِ حرص و ہوس ہے
ہر ایک مستی میں
پڑا ہے قحط قنا عت کا
میر ی بستی میں
مزےلوتلخئی دوراں سے
جا مِ شیریں کے
علا جِ گر د شِ ہستی یہی ہے ہستی میں
نہ پا سکے گا
کبھی ز ند گی میں ساحل وہ
شگِاف جس نے کیا ہو خود ا پنی
کشتی میں
شفیق لہجے میں یہ سر زَ نش بز رگوں
کی
نمودِ فصلِ محبت ہے ا یسی سختی میں
بلُندیاں بھی اُ سی
کا نصیب ہیں
جِس میں
اُڑان کی ہو تڑپ زندگی کی پستی میں
متاعِ رنگِ ہُنر کو سنبھال
کر ر کھنا
یہ کا م آ تی ر ہے گی سُخن پر ستی میں
نگاہِ دہر میں راشؔد وہ معتبر ٹھہر ے
جو آبرو رکھے بے داغ تنگدستی میں