غزل
راشؔد ذوالفقار
ضِد چھوڑ بھی دے
آج ، اک بار ٹھہر جا
کچھ دیر میرے پاس میرے یار
ٹھہر جا
کیوں مجھ سے شکایات و گِلےکرکے چلا ہے
سُن میری بھی ، غیروں
کے طرفدار ٹھہر جا
میں آبلہ پا پیاس بجھا
نے کو تیری پھر
آتا ہوں ابھی واد ئ پُر
خار ٹھہر جا
چھوڑ دیں گے فنا
کر کے بہاروں کے پیمبر
تُو اب ہے نشانے پہ خِزاں کار ٹھہر
جا
ہر قصّئہ غم دِل میں دبا رکھا ہے راشؔد
ہے حوصلہ سُن نے
کا تو دلِدار ٹھہر
جا
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔