((( غزل )))
حسن و شباب و شرم کا
عالم بھی کم نہیں
پلکوں سے جھانکئے تو ذرا
ہم بھی کم نہیں
سنگیت کے سروں سے
ہمیں عشق ہے مگر
ان کی بہکتی سانسوں کے سرگم بھی کم نہیں
پھولوں کے چہرے اوس نے تازہ کئے تو کیا؟
مسکاں پہ تیری نرمئی شبنم بھی کم نہیں
احساسِ دِل شکستہ کی دِل جوئی کے لئے
باتوں میں تیر ی خوبئی مرہم بھی کم نہیں
اک یاسیت پسند کو
رونے کے واسطے
گل ہائے نوبہار کا موسم بھی کم نہیں
راشّد گماں تھا آج وہ خود ہی منایئں ، پر
تیو ر مزاجِ یار کے برہم بھی کم نہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔