لَب بَستہ ہیں آلام کا چَرچا نہیں کرتے


غزل

لَب بَستہ ہیں آلام کا چَرچا نہیں کرتے

دستُورِ  غِم  ہجر   کو  بدلا  نہیں  کرتے

تم  کھول  کے  بیٹھے  ہو  شکایات  کا  دفتر

اِک ہم ہیں عنایات کو روکا نہیں کرتے

اِخلاصِ عزیزاں نے ڈسا  ہم   کو  تو  جانا

دُشمن تو اِس انداز سے رُسوا نہیں کرتے

مینارہ   شہرت پہ ٹھہرنے  کے  نشے  میں

لّذت کبھی  گمنامی  کی   بھولا نہیں  کرتے

بہتر  ہے  یہی  پردہ  اخفا  میں  رہے  سب

کچھ راز تو یاروں پہ بھی اَفشاں نہیں کرتے

راشؔد  ہے  عقائد  کے  تصادم  میں  خرابی

مسلک کو کسی کے کبھی چھیڑا نہیں کرتے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔