غزل
راشؔد ذوالفقار
بس نہیں چلتا مرا ،جس کے بیاں کےسامنے
کیا زُباں میں کھولتا
،اُس بدگماں کے سامنے
راستوں کی دُھوپ سے
گھبراکے واپس لوٹنا
شرمساری کا سبب
ہوگا جہاں کے سامنے
خیمئہ صبرو رضا میں
ہر زیاں کو بھول یوں
دَم بخُود ہوں اہلِ
زر اِس آستاں کے سامنے
حوصلے ہم نے قبیلے کے
بڑھائے اِس طرح
دِل میں اندیشے
چھُپائے کارواں کے سامنے
یاد نے ہم کو
کسی کی ، رات کے پچھلے پہر
لا بٹھایا پھر نئے
، اک
امتحاں کے سامنے
جب خُدا کے خوف سے
آباد اِس کا دِل نہیں
سرنگوں ہے عدل ایسے
حکمراں کے سامنے
زندگی کی نعمتوں کا ہوگا
راشؔد یوں شمار
روز و شب سَجدے خُدا کے سامنے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔