غزل
راشؔد ذوالفقار
رنگ و رُوپ برسائے ساحلِ سمندر پر
تم بھی گھومنے آئے ساحلِ سمندر پر
دِلکشی نظاروں
نے اُوڑھ لی جو تم نکلے
آنچلوں کو لہرائے
ساحلِ سمندر پر
ڈھل گئی فضا ساری نغمہ زارمیں جیسے
گیت یہ ہوا گائے ساحلِ سمندر پر
موج تیرے جوبن سے گر
کوئی لپٹ جائے
رات بھر یہ اِترائے ساحلِ سمندر پر
تیری خوش خرامی
کو کیا چُرا
لیا اِس نے
لہر جو یہ بَل کھائے ساحلِ سمندر پر
دِل کی سرد چوٹوں کی جب کسک ستائے تو
مرض یہ شِفا
پائے ساحلِ سمندر پر
اُس کے لوٹ آنے پر آج پھر مری
راشؔد
ہر مُراد بَر آئے ساحلِ سمندر پر
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔