غزل
راشؔد ذوالفقار
مُنجدھار میں چھوڑے
گا ڈھلتے ہوئے سورج کو
آداب ! جو کرتا ہے
چڑھتے ہوئے سورج کو
ہم کھوج میں چھاؤں کی
کچھ بھی تو نہ کرپائے
دُشنام عبث دینا جلتے ہو
ئے سورج
کو
کچھ دیر کو
ظلمت کا پابند
کیا
، رب نے
دیکھا ہے گہن
ہم نے لگتے
ہوئے سورج کو
دیتے ہیں دُعائیں بھی گرمی کےستائے
سب
پردے میں سحابوں کے چھپتے ہوئے
سورج کو
مزدور کی محنت
سے ، دہقان
کی ہمّت تک
ہے دعوتِ نظارہ تپتے ہوئے سورج کو
خاطر میں نہیں
لاتے یہ صحرا
نشیں راشؔد
اِن آگ سی راہوں پر چلتے
ہوئے سورج کو
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔