٭٭٭ غزل ٭٭٭
ہم کو کبھی دیکھے
وہ عنایت کی نظر سے
کب تک اُسے دیکھیں اِسی حسرت کی نظر سے
وہ ہم کو نہ چاہے یہ
دعُا پھر بھی ہے اپنی
اللہ بچائے اُسے نفرت کی نظر سے
بندھن ہے یہ انمول خسارے میں
رہوگے
یوں پیار کو پُرکھو نہ تجارت کی نظر سے
قربانی طلب کرتے ہیں یہ خون کے رشتے
برباد نہ کردینا سیاست کی نظر سے
کچھ چُوک ہوئی ہم سے رہِ رسمِ وفا میں
لگتا ہے یہی اُس کی شکایت
کی
نظر سے
راشؔد ابھی باقی ہے کوئی طرزِ ستم
اور
تخمینہ لگا اُس کی عداوت کی نظر سے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔