غزل
راشؔد ذوالفقار
کب کسی نوکِ
خار کی سی
ہے
یہ کسک پہلے پیار
کی سی ہے
تازگی ان گلوں کی
کیا کہیے
تیرے مہکے عِذار
کی سی ہے
مثلِ مضراب ہے تیر ا
لہجہ
میری حالت سِتار کی سی
ہے
تیری صحبت بِنا مری ہر شام
دُلہن اک بے سنگھار کی
سی ہے
عارضی کائنات میں آخر
نقدِ جاں تو اُدھا کی
سی ہے
شوق میں کیا
مِلا تمھیں راشؔد
آخرِ شب خُمار کی سی ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔